Movement of Eradication of Rituals, Customs & Un-Islamic Traditions
Compassion Fulfills Islamic Duty (الرأفة تحقق الواجب الإسلامي)Movement of Eradication of Rituals, Customs & Un-Islamic Traditions
Quran Reference: “And those who say, ‘Our Lord, grant us from among our wives and offspring comfort to our eyes and make us an example for the righteous.” (Quran 25:74)
رسوم و رواج مٹاؤ دعوت و تحریک
بانی و خادم
ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی
بانی و مدیر اصلاح و ترقی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی و سابق پروفیسر ام القرى یونیورسٹی , مکہ مکرمہ
ملاحظہ: رسوم و رواج مٹاؤ دعوت و تحریک شروع کرنے کی وجوہات و اسباب کو جاننے کے لیے اس موضوع کو مکمل طور سے پڑھیں ۔ کیونکہ یہ وقت کی شدید ترین ضرورت ہے ۔دینی, اخلاقی و معاشرتی تقاضا ہے ۔معاشرہ کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے آپ خود بھی اس کا حصہ بنیں اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کریں ۔ اور مالی تعاون کریں تاکہ یہ تحریک جاری رہ سکے اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔آپ داعیوں کی کفالت و خرچ کا ذمہ لے سکتے ہیں اور کتابوں کی نشرو اشاعت میں حصہ لے سکتے ہیں وغیرہ ۔
علماء , خطباء و مفتیان سے اپیل
علماء,خطباء, داعیان و مفتیان کرام سے ایک مخلصانہ و دردمندانہ اپیل
اصلاح و ترقی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے بہت سارے شعبے ہیں۔ جن میں ایک بہت ہی اہم شعبہ ” رسوم و رواج مٹاؤ دعوت و تحریک” کا ہے۔ جس کا مقصدمسلمانوں کے اندر پائے جانے والے غیر اسلامی رسوم و رواج کا قلع قمع کرنا ہے جو اس کے نام سے ہی واضح ہے ۔ الحمد للہ اس تحریک و دعوت کےساتھ بہت سارے لوگ جڑ چکے ہیں اور یہ تحریک و دعوت دن بدن اللہ کے فضل و کرم سے پھیلتی جا رہی ہے ۔ اس دعوت و تحریک کے بانی و خادم ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی جہاں بھی گئے اس دعوت و تحریک سے لوگوں کو روشناس کرایا , اس کے کے بارے میں عوام کو بتلایا ۔رسوم و رواج کے نقصانات و مضرات کو واضح کیا۔اور ان کے غیر اسلامی ہونے کے دلائل دئیے۔
بنا بریں بنگال, مہاراشٹرا, بہار اور یوپی میں ہر جگہ کے بہت سارے لوگوں نے نہ صرف اس کام کی تعریف کی بلکہ ساتھ دینے کا وعدہ کیا اوربہت سارے افراد نے اپنا نام بھی نوٹ کروایا تاکہ گروپ میں ان کا نام شامل کردیا جائے ۔
لہذا سوسائٹی علماء , خطباء , داعیان, مفتیان اور حفاظ کرام و غیرہم سے یہ مخلصانہ و دردمندانہ اپیل کرتی ہے کہ آپ بھی اس دعوت و تحریک کا حصہ بنیں۔ اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں, اس دعوت و تحریک کو عام کریں اور اس کو ہر مسلمان و ہر گھر تک پہنچائیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اگر غیر شادی شدہ ہیں تو خود اپنی شادی اور صاحب اولاد اپنے بچوں و بچیوں کی شادیاں اسلام کے مطابق کریں, علماء و مفتیان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جہیزو بارات والی شادی کا بائیکاٹ کریں , اس میں نکاح ہرگز نہ پڑھائیں,وراثت میں لڑکیوں کو ان کا حق دینے کی تاکید کریں, ہر قسم کے رسوم و رواج سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کریں۔
اگر آپ اس سلسلے میں خود عمل کرتے ہیں اور سخت موقف اختیار کرتے ہیں تو ان شاء اللہ اس کا عوام پر بہت زیادہ اثر ہوگا اور رسوم و رواج کو سماج و معاشرہ سے ختم کرنے میں بہت ہی مفید و معاون ثابت ہوگا۔
آئیے ہم سب ایک ساتھ مل کر معاشرہ سے ہر قسم کے غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ کرتے ہیں۔ جان لیجیے یہ کام کسی ایک فرد یا سوسائٹی یا جماعت کا نہیں ہے بلکہ یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور باہمی تعاون و اشتراک سے ہی یہ کام ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالى آپ کو اس عمل کا بہترین بدلہ دے اور اسے قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ بنائے ۔آمین
نوٹ:سوسائٹی کا نمبر ہے: 7300737332 , آپ اس نمبر پر واٹسپ کرکے رسوم و رواج گروپ میں اپنا نام درج کراسکتے ہیں۔
رسوم و رواج کا حکم جاننے کے لیے اس سے متعلق مضمون” اسلام میں رسوم و رواج اور عادات و تقالید کا حکم ” کا مطالعہ www.drmannan.com پر کریں۔
رسوم و رواج مٹاؤ دعوت و تحریک
دور حاضر کے مسلمان سماج و معاشرہ میں سیکڑوں قسم کے رسوم و رواج, عادات و تقالید, اوہام و خرافات پائے جاتے ہیں جن پر اکثر مسلمان بہت سختی سے عمل کرتے ہیں ۔ اسلامی فرائض و واجبات میں کوتاہی ممکن ہے بلکہ کوتاہی و بے عملی ایک کھل ہوئی حقیقت ہے جو ہر ایک کے لیے بالکل واضح ہے لیکن کیا مجال ہے کہ کوئی رسم و رواج فوت ہوجائے ۔ سماجی ماحول کی وجہ سے ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر رسم و رواج پر عمل نہیں کیا تو ان کی ناک کٹ جائے گی ۔ سماج میں ان کی عزت نہیں رہے گی لوگ ان پرہنسیں گے وغیرہ۔
مرور ایام کے ساتھ ان رسوم و رواج نے مسلمان سماج کو أپنے ظالم چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ معاشرہ پر اس کی گرفت بہت ہی مضبوط ہے جس کا فرد, خاندان و سماج پر معاشی و سماجی , تعلیمی و تربیتی بہت ہی خراب اثر ہوتا ہے۔ اور اس کے کئی قسم کے دینی و شرعی بے انتہا نقصانات ہوتے ہیں۔حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں میں خلل واقع ہوتا ہے۔ عقیدہ میں فساد پیدا ہوتا ہے۔شریعت کا وقار کم ہوتا ہے۔رسوم و رواج کا مقام و مرتبہ بعض کی نظر میں شریعت سے بڑا ہوتا ہے۔بہت سارے لوگو خصوصا عورتوں کو زبردستی ان کے شرعی و دینی حقوق سے محروم کرنے کا یہ بہت بڑا کارگر ہتھیار ہے , نسل در نسل حرام خوری کا بہت بہترین آلہ ہے , دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا اس سے بہتر و مفید اور کوئی طریقہ نہیں ہے , سماج و معاشرہ میں کئی طرح کے فساد اور بگاڑ نیز لڑائی و جھگڑا کا ایک نہایت زبردست اوزار ہے۔بلا شبہ عصر حاضر میں یہ ظلم و جور کا بہت بڑا سبب ہےاور آج کے دور میں پورا سماج اس کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور مکمل معاشرہ اس کے بد اثرات و خراب نتائج تلے کراہ رہا ہے۔کتنی لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہوئی اور کتنوں کے سہاگ اجڑ گئے ۔ کتنے والدین أپنی بچیوں کے غم میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور کتنے قرض تلے دب گئے ۔کتنوں نے اپنا گھر بار فروخت کردیا اور کتنی لڑکیاں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ کتنوں کو ان کے شرعی حقوق سے محروم ہونا پڑا۔ وغیرہ , یہ فہرست بہت لمبی ہے ان سب کا احاطہ یہاں پر مقصود نہیں ہے, خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسوم و رواج کے شرعی و سماجی , دینی و تربیتی , اقتصادی و مالی وغیرہ بد اثرات بہت زیادہ ہیں جن کو یہاں تفصیل سے بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
اسی وجہ سے سوسائٹی نے رسوم و رواج , اوہام و خرافات کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا پختہ ارادہ کیا ہے تاکہ فرد و سماج کو ان سے نجات دلائی جا سکے اور ایک صحیح اسلامی سماج و معاشرہ قائم کیا جاسکے جہاں ہر ایک کو اس کا حق مل سکے اور کسی پر کسی بھی طرح کا ظلم نہ ہو۔
اس تحریک میں کسی بھی مسلک کا ہر وہ مسلمان شریک ہو سکتا ہے جو اس تحریک سے اتفاق رکھتا ہے اور ایک صالح سماج کی تعمیر کا ارادہ رکھتا ہے۔بلاشبہ اس تحریک کے بہت زیادہ فوائد ہیں لیکن اس کی کامیابی ہم سب کی مشترکہ کوششوں پر منحصر ہے ۔ یہ کسی خاص فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس کے بارے میں ہم سب سے قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔اس میں شامل ہونے والے ہر شخص کے لیے فارم بھرنا اور اس کے اصول و ضوابط کی اتباع کرنا لازم و ضروری ہے۔
• نعرہ
شعارنا الوحید الى الاسلام من جدید
ہمارا صرف ایک ہی نعرہ ہے اور وہ ہے: از سر نو کامل اسلام کی طرف واپسی, مکمل اسلام پر عمل , غیر اسلامی رسوم و رواج و عادات و تقالید کو چھوڑنا
• مقصد
اس تحریک کا مقصد مسلمان سماج و معاشرہ میں پھیلے ہوئے ہر طرح کے غیر اسلامی رسوم و رواج , عادات و تقالید, اوہام و خرافات کا خاتمہ کرنا ہے خواہ ان کا تعلق انسانی زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو۔مثلا پیدائش , بچپن , شادی بیاہ , وفات , ختنہ کے رسوم و رواج وغیرہ
بعض اہم اصول و ضوابط
• اس تنظیم و جماعت سے جڑنے والا ہرشخص خادم کہلائے گا۔ یہاں پر کوئی دنیاوی منصب وغیرہ نہیں ہوگا۔ تاکہ لوگوں میں اخلاص قائم رہے۔ اس کے اندر خدمت کا جذبہ باقی رہے ۔ وہ أپنے کو صدر , ناظم یا رئیس نہ سمجھے۔جو سب کا امیر ہوگا وہ خادم نمبر ایک کہلائے گا۔اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہوگی ۔ اس کا کام ہفتہ میں ایک دن تمام خادموں سے ملنا اور ان سے رپورٹ لینا لائحہ عمل بنانا اور مشورہ کرناہوگا۔
• اس تحریک و دعوت سے جڑے ہر فرد کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں کامل اسلام پر عمل کرے گا۔ حکمت و دانائی کے ساتھ سماج میں پھیلے ہوئے رسوم و رواج کو مٹائے گا۔ کتاب و سنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ لوگو کو رسوم و رواج کے چھوڑنے پر آمادہ کرے گا۔ ان کے نقصانات بتلائے گا۔کسی سے زبردستی نہیں کرے گا۔اعلى اسلامی اخلاق کا حامل ہوگا۔
• اس تحریک سے جڑے ہوئے لوگوں کو صرف أپنے ہی علاقہ میں کام کرنا ہوگا۔ دور دراز کے علاقہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ یہ تحریک قائم کی جائے گی۔ اور ایک علاقہ کے لوگ دوسرے علاقہ والوں سے زوم یا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ مل سکتے ہیں یا مشورہ کر سکتے ہیں۔
• اس تحریک سے وابستہ أفراد کو ہفتہ میں دو دن ایک ایک گھنٹہ ٹائم دینا ہوگا اور أپنے ہی گاوں و علاقہ میں لوگوں سے ملاقات کرنی ہوگی۔اگر کوئی اس سے زیادہ وقت لگاتا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔یاد رکھیے کہ زمینی سطح پر کام کے بغیر کامیابی بہت ہی مشکل ہے۔
• جو بھی ہمارے ان مقاصد سے اتفاق رکھتا ہے اور اسے امت کے لیے مفید و کارآمد سمجھتا ہے ۔وہ درج ذیل فارم کو پر کرکے ہمارے ساتھ اس دعوت و تحریک میں جڑ سکتا ہے ۔ میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ان کا استقبال کرتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا
آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے لیے ضروری وسائل و اسباب کو مہیا فرمائے۔ آمین ثم آمین
رسوم و رواج کو مٹانا در اصل اصلاح و جہاد ہے
موجودہ دور میں مسلمان سماج میں بہت سارے غیر اسلامی رسوم و رواج پھیلے ہوئے ہیں جو نہ صرف سماج کا لازمی حصہ بن چکے ہیں بلکہ مسلمانو کی ایک بڑی تعداد دین و شریعت کی طرح ان پر عمل پیرا ہے ۔ کچھ تو ان رسوم و رواج کو دین و شریعت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس پر مقدم سمجھتے ہیں ۔ ان کا دائرہ بھی زندگی کے ہر گوشہ تک پھیلا ہوا ہے جن کے بہت زیادہ دینی, سماجی, نفسیاتی , اقتصادی و معاشرتی وغیرہ نقصانات ہیں اور اس بوجھ تلے پورا سماج کراہ رہا ہے ۔
ایسی صورت میں سماج سے رسوم و رواج کا خاتمہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ کسی ایک فرد یا تنظیم یا سوسائٹی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہر مسلمان شخص کی شرعی, سماجی و اخلاقی مشترکہ فریضہ ہے ۔ اس کے بارے میں ہر شخص سے قیامت کے دن سوال ہوگا۔دھیان رہے کہ یہ رسوم و رواج خود سے نہیں مٹ جائیں گے ۔ اس کے لیے سخت محنت و مشقت, جد وجہد اور سعی پیہم نیز باہمی تعاون کی شدید ضرورت ہے۔کوئی بھی اجتماعی کام اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔رسوم و رواج مٹاؤ تحریک اسی سلسلے کی ایک مبارک کڑی ہے ۔
لہذا آئیے تعاونوا على البر و التقوی(مائدہ/2) کے تحت آپس میں تعاون کریں, مل کر کام کریں اور رسوم و رواج کو سماج سے اکھاڑ پھینکیں۔اس دعوت و تحریک میں خود شامل ہوں اور دوسروں کو بھی شامل کریں ۔ اس اہم و ضروری پیغام کو ہر فرد تک پہنچائیں۔ بہت بہت شکریہ
تفصیل و فارم سوسائٹی ویب سائٹ پر موجود ہے۔www.Islahotraqqi.com